کہاں یہ بس میں کہ ہم خود Ú©Ùˆ Ø+وصلہ دیتے
یہی بہت تھا کہ ہر غم پہ مسکرا دیتے

ہوا کی ڈور الجھتی جو انگلیوں سے کبھی
ہم آسماں پہ تیرا نام تک سجا دیتے

ہمارے عکس میں ھوتی جو زخم دل کی جھلک
ہم آئینے Ú©Ùˆ بھی اپنی طرØ+ رلا دیتے

ہمیں بھی روشنیوں پر جو دسترس ھوتی
کبھی چراغ جلاتے،کبھی بجھا دیتے

ہمارے پاؤں ہواؤں کی زد میں تھے ورنہ
گزرتی عمر کو رک رک کر صدا دیتے

اب اس کی یاد سے اس کا بدن تراشتے ہیں
وہ خواب بھی تو نہیں تھا کہ ہم بھلا دیتے

اسی Ú©Û’ واسطے"Ù…Ø+سن"کہی Ú¾Û’ تازہ غزل
ہم اس کی سالگرہ پر اب اور کیا دیتے؟